• Breaking News

    Monday 28 August 2017

    1971 کی جنگ میں بچھڑے میاں بیوی کی داستان

    داستان اپو قادر
    تحریر زاھد بلتی ستروغی یتو

    پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور  بیچ میں ہم ہیں
    مثال گوہر نایاب ۔۔۔۔۔۔۔ہم پتھر میں رہتے ہیں

    سطح سمندر سے 11ہراز فٹ کی  بلندی پر واقع  وادی سیاچن دنیا میں سیاحوں کیلئے جنت سے کم نہیں اور بلتی یول (بلتستان)کیلئے
    خدا کا دیا ہوا ایک انمول تحفہ ھے  یہاں اونچے اونچے پہاڑ  گہری ندیاں،خوبصورت آبشاریں،سر سبز و شاداب وادیاں راستے میں رُکنے پر مجبور کرتے ہیں تو کہیں سکردو شہرکی سرد ریگستان جس میں آبادی نہ ہونے کی وجہ سے تا حد نگاہ ریت سے آنکھ مچولی کھیلنے کا مزہ ہی الگ ہے، کہیں زمین سونا اگلتی ھےتو  کہیں زمین بنجر ھے پھر بھی یہاں بسنے والے خوش ھیں یہاں کے لوگ کالے بھی ہیں اور گورے بھی خوبصورت بھی  لمبے قد والے بھی چھوٹے قد والے بھی ،اہل دانش بھی،اہل ادب،ادیب بھی شعرا۶ بھی،بلتی رسم رواج کےمطابق زندگی بسر کرنے والے بھی اور بڑے بڑے شہروں میں رہنے والے بھی  پھر بھی ہر کوئی یہی سوچ رکھتا ھے  فایول اور فاسکت ہماری پہچان ھے
    (فایول) یعنی اباواجداد کی سر زمین
    (فاسکت) یعنی اباواجداد کی زبان
    دوستو انسان کی پہچان زبان اور علاقے سے کیجاتی ھے مگر ہمارے چند لوک ایسے ہے جو  بلتی زبان بولنے  میں  عار محسوس کرتے ہیں اور علاقے کا نام لینے میں شرما ہٹ  محسوس کرتے ہیں تورتُک کرگل میں رہنے والے ہمارے لوگ ہم سے بچھڑے 46 سال ہو گئے مگر بلتی زبان بلتی ثقافت ابھی تک نہیں بھولے   سرحد پر کھنچی لکیر نے ہمیں جدا ضرور کیا  مگر دلوں کا پیار ابھی تک  دلوں سے الگ نہیں  کر سکے۔ 1971 پاک انڈیا جنگ میں بچھڑے خاندان کی ایک ایسی داستان جو محبت بھری اور پیار کی نشانی ہے جو آپ   لوگوں کیلئے پیش خدمت ھے
    جنگ سے پہلے تورتوک ٹیاقشی گاوں  پاکستان کا حصہ تھا  جنگ کے دوران  تورتوک ٹیاقشی کے پورے علاقے کو ہندوستان نے قبضہ کر لیا  اس کے بعد یہ علاقہ  پاکستان سے کٹ کر ہندوستان میں ضم ھو گیا پھر سرحد پر لکیر کھینچ دی گئی  جس کے نتیجے میں  بہت سارے خاندا ن  اپنے پیاروں سے جُدا ھو گئی  سرحد کی اس لکیر نے نہ جانے کتنے لوگوں کو جدائی کا صدمہ دیا  اپنوں سے بچھڑنے کا غم سہنے پر مجبور کر دیا تیاقشی کا رہنے والا اپو قادر بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا1971 کی جنگ میں  اپنوں سے بچھڑ گئے  جنگ کے دوران اپو قادر پاک آرمی  میں فوجی تھا اپو قادر کی ڈیوٹی کھرمنگ حمزی گون میں تھا  جنگ کی وجہ سے اپو قادر کو چھٹی نہیں ملی
    جب جنگ ختم ھوا تو لکیر کھینچ چکا تھا  اسی لکیر کی وجہ سے اپو قادر بیوی بچوں سے جدا ھو گئے اس کی بیوی بچے ٹیاقشی میں اور اپو قادر سکردو میں رہ گئے اپو قادر کیلئے یہ لمحہ کتنا مشکل تھا کتنی کرب میں گزارے وہ لمحے۔اپنے بیوی بچوں رشتہ داروں سے بچھڑنے کا غم انھیں بہت تڑپاتے رہے نہ جانے کتنی راتیں روتے ہوئے گزاری آخر کار 10 سال بعد بیوی کی طرف سے اپو قادر کو ایک خط موصول ہوا خوشی کی انتہا نہ رہی خط  پڑھتے پڑھتے جدائی کی یادوں نے سارا خط آنسووں سے بِگو دیئے دن میں کئی  دفعہ خط پڑھنے لگا جدائی کے غم میں دن گزراتا گیا رات کٹتی گئی ایک دوسرے سے مل نہ سکا اخر چھوربٹ سیاری ٹاپ پر جا کر  اپنے علاقے کی طرف دیکھ کر جدائی کے گیت گاتا  دل کو تسلی دے کر واپس آتے اس طرح اپو قارد  کا سیاری ٹاپ پر جانا معمول بن گئےایک دن  سیاری ٹاپ  پر بیٹھے ٹیاقشی کی طرف دیکھ رہا تھا موسم کی خرابی کی وجہ سے سارا علاقہ بادلوں میں چھپا ہوا تھا اپو قادر یادوں  کی پیاس کو مٹانے کیلئے کیا کر سکتا بلتی یول سے شام  کو واپس لوڈ کر جانے  والے پرندوں سے بھی کہتا تھا ہائی میرے بلتی یول سے جانے والے پنچھی  اگر تیاقشی میں کہیں میری شریکِ حیات نظر ائے تو قادر کا سلام کہنا اور بتانا بلتی یول میں  ہر طرف پھول کھلے ھیں جشن نوروز جشن ستروب لہ کاتہوار  قریب آرہا ہے  مگر تیری کمی  کو پورا کرنا مشکل ہے دوستو جدائی کا زخم اپو قادر کو کھاتے گئے  جوانی میں بوڑھاپا،بال سفید ہونا شروع ھو گئے سکردو  میں جہاں بھی کوئی تہوار ھوتا اپو قادر  جدائی کے گیت گاتا  ایک دن ریڈیو سکردو پر اپو وتھول کے پروگرم سکررچن میں اپو قادر کو دعوت ملا اس وقت ریڈیو کے علاوہ اج کل کے ٹی وی موبائل وغیرہ نہیں تھے اپو قادر اپو وتھول کے پروگرام میں روتے ہوئے ایک بلتی گیت گایا   وہی گیت ہندوستان میں اس کی بیوی نے بھی ریڈیو پر سن لی تھی  گیت سن کر اس کی بیوی بہت روئی اور اپو قادر کی یادوں میں ایک دن دریا پر لگے پل پار کرتے ہوئے پانی میں گر گئی آخر  مردہ  لاش دریائے شیوک کے بہتی بے رحم موجوں نےسرحد پار پاکستان  لے کر آیا اور وادی  خپلو  غورسے نامی علاقے میں اپو قادر نے آہوں اور سسکِیوں میں اپنے ہاتھوں سے سپردِخاک کر دیا گیا،اور محبت کی یہ داستان مِٹی تلے دفن ہو گئی۔۔۔۔
    تحریر زاھد بلتی ستروغی یتو  بلتستان

    پلیز اس کہانی کو  اگے شر کرو

    No comments:

    Post a Comment

    Home

    Gallary

    Travel